Rights of Relatives

برادرانِ اسلام! “صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور حُسنِ سُلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی  واجب ہے، اور قطع رحمی (یعنی رشتہ کاٹنا توڑنا) حرام ہے”([1])۔

عزیزانِ محترم! اسلامی تعلیمات میں والدین، بہن بھائیوں، اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آنے، صلہ رحمی کرنے، حسبِ مَراتب تعظیم وتوقیر بجا لانے، اور اُن کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید فرمائی گئی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ﴾([2]) “اور رشتہ داروں کو اُن کا حق دو!” یعنی۔اُن کے ساتھ صلہ رحمی، محبت، میل جول، خبر گیری، موقع پر مدد اور حُسنِ مُعاشرت کرو!

رشتہ داروں کے ساتھ میل جول رکھنا، اور صلہ رحمی کرنا اُن کا حق ہے، اور اس حق کی ادائیگی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ﴾([3]) “اور وہ کہ جوڑتے ہیں اُسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا”۔

حضراتِ گرامی قدر! حضور نبئ کریم ﷺ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ خوب حُسنِ سُلوک سے پیش آتے، اور بوقتِ ضرورت ان کی مدد بھی فرماتے تھے، اُمّ المؤمنین حضرتِ سیّدہ خدیجہ ﷝ حضور ﷺ سے سب سے زیادہ قریبی شخصیت تھیں، سروَرِ کونَین ﷺ کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: «إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُوْمَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقّ»([4]) “آپ صِلہ رحمی فرماتے ہیں، مزدوروں کا بوجھ اُٹھا کر ان کی مدد کرتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور مَصائب میں لوگوں کی مدد فرماتے ہیں”۔

حضور نبئ کریم ﷺ نے ہمیشہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق بنائے رکھنے کی تاکید فرمائی، حضرت سیِّدنا ابن ابو الحسین﷛ سے روایت ہے،  مصطفى جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا: «أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى خَيْرِ أَخْلَاقِ أَهْلِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ، وَتُعْطِيَ مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَكَ!»([5]) “كيا میں تمہیں دنیا وآخرت میں سب سے اچھے اَخلاق نہ بتا دوں؟ جو تم سے تعلق توڑے تم اُس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کرو، اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے مُعاف کر دو!”۔

عزیزانِ محترم! رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا، اور ان کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آنا، جنّت میں داخلے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، حضرتِ سیِّدنا ابوایوب انصاری ﷛ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبئ پاک ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی، کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنّت میں داخل کردے، سروَر دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا: «تَعْبُدُ اللهَ وَلاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ!»([6]) “اللہ تعالی کی عبادت کرو، اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اور نَماز ادا کرو، اور زکاۃ دیا کرو، اور صلۂ رحمی کیا کرو!” یعنی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سے پیش آؤ، اور اُن کے حقوق کی پاسداری کرو۔

جانِ برادر! صلہ رحمی افضل ترین اعمال میں سے ایک ہے، حضرت سیِّدنا مُعاذ بن انَس ﷛ سے روایت ہے، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا: «أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ، وَتُعْطِيَ مَنْ مَنَعَكَ، وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَكَ»([7]) “افضل ترین عمل یہ ہے کہ جو تم سے رشتہ توڑے تم اُس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کرو، اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے مُعاف کردو!”۔

حضراتِ ذی وقار! صلہ رحمی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے اچھے بُرے طرزِ عمل کی پرواہ کیے بغیر، خالصۃً اللہ کی رضا اور حکم بجا آوری کے لیے اُن سے میل جول رکھا جائے، اُن کے دکھ سُکھ میں شریک رہا جائے، اور مشکل وقت میں اُن کی مدد کی جائے، حضرت سیِّدنا عبد اللہ بن عَمرو ﷛ سے روایت ہے، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا:  «لَيْسَ الوَاصِلُ بِالمُكَافِئِ، وَلَكِنِ الوَاصِل الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا»([8]) “صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنےوالا وہ ہے کہ اگر اُس سے قطع رحمی کی جائے، تب بھی وہ صلہ رحمی کرے !”۔

بدلے میں صلہ رحمی کرنے سے مُراد یہ ہے کہ انسان صرف اُس رشتہ دار سے ملے جو اِس سے ملتا ہو، اور جو نہیں ملتا اُس سے میل جول اور تعلق نہ رکھے، لیکن صلہ رحمی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار آپ سے قطع تعلقی کرے، تو جواباً تعلق توڑنے یا بدسُلوکى کے بجائے اُس سے حُسنِ سُلوک کریں، ادب واحترام سے پیش آتے رہیں، اور اُس کے ساتھ خیر وبھلائی کی عادت کو ترک نہ کریں!۔

عزیزانِ مَن! رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آنا، اُن سے تعلق بنائے رکھنا، اور اُن کے حقوق ادا کرنا، صلہ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں، صلہ رحمی کے متعدد فوائد ہیں جن میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:

(1) صلہ رحمی گناہوں کی بخشش کا سبب ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾([9]) “اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں، قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی، اور چاہیے کہ مُعاف کریں اور درگزر کریں، کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری بخشش کرے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔

(2) رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آنا محبت، مال، اور عمر میں برکت کا سبب ہے، نبئ کریم ﷺ نے فرمایا: «تَعَلَّمُوْا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ؛ فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، مَثْرَاةٌ فِي المَالِ، مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ»([10]) “اپنے رشتہ داروں کو پہچانو؛ تاکہ رشتوں کا لحاظ رکھ سکو؛ اس لیے کہ رشتہ داروں سے حسنِ سُلوک خاندان میں محبت، اور مال وعمر میں برکت کا سبب ہے”۔

(3)  صلہ رحمی رزق میں وُسعت،کُشادگی، اور عمر میں برکت کا سبب ہے، حضرت سیِّدنا انَس بن مالک ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ»([11]) “جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس کے رزق میں وُسعت اور عمر میں برکت ہو، اُسے صلہ رحمی کرنی چاہیے”۔

(4) صلہ رحمی اور رشتہ داروں سے حُسنِ سُلوک بُری موت سے نَجات وحفاظت کا سبب ہے، حضرت سیِّدنا انَس بن مالک ﷛ سے روایت ہے، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا: «إِنَّ الصَّدَقَةَ وَصِلَةَ الرَّحِمِ يَزِيدُ اللهُ بهما فِي الْعُمُرِ، وَيَدْفَعُ بهما مِيتَةَ السُّوءِ، وَيَدْفَعُ اللهُ بهما المَكْرُوهَ وَالمَحْذُورَ»([12])“صدقہ اور صلہ رحمی کے سبب اللہ تعالی عمرمیں برکت دیتا، بُری موت کو دفع کرتا، اور ناپسندیدہ اور قابلِ اِجتناب چیز کو دُور فرماتا ہے”۔

(5) رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ایمان کی علامت ہے، حضرت سیِّدنا ابوہریرہ ﷛ سے روایت ہے، حضور نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ»([13]) “جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے”۔

(6) صلہ رحمی لمبی عمر اور بُری موت سے نَجات کا سبب ہے، حضرت سیِّدہ عائشہ صدّیقہ عائشہ طیِّبہ طاہرہ ﷝ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: «صِلَةُ الرَّحِمِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَحُسْنُ الْجِوَارِ، يَعْمُرَانِ الدِّيَارَ، وَيَزِيدَانِ فِي الْأَعْمَارِ»([14]) “صلہ رحمی، اچھے اَخلاق اور اچھا پڑوسی، شہروں ملکوں کو آباد ، اور عمر میں اِضافہ کرتے ہیں”۔

میرے محترم بھائیو! صلہ رحمی کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے گھر جایا جائے، ان سے ملاقات کرکے ان کی خیریت اور حال اَحوال جانا جائے، انہیں تحفے تحائف دیے جائیں، ان کی خوشی وغمی میں شرکت کی جائے، کوئی رشتہ دار  بیمار ہو تو اُس کی عیادت کی جائے، جب بھی سامنا ہو تو خوش دلی سے ملاقات کی جائے، اور اگر انہیں کوئی حاجت درپیش ہو تو اُن کی حاجت رَوائی کی جائے۔

برادرانِ ملّتِ اسلامیہ! اسلام میں خونی رشتوں کے ساتھ قطع رحمی کرنا، اُن کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا باعث ہے، اور قرآنِ کریم میں اس کی سخت ممانعت ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾([15]) “اور اللہ  سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو، اور رشتوں کا لحاظ رکھو ( یعنی قطع تعلق نہ کرو)، یقیناً اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے!”۔

رشتہ داروں سے قطع تعلقی، اللہ کی رحمت سے دُوری اور بُرے انجام کا باعث ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ﴾([16])

“اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے پکّے ہونے کے بعد توڑتے ہیں، اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اُسے قطع کرتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلاتے

“اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے پکّے ہونے کے بعد توڑتے ہیں، اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اُسے قطع کرتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلاتےہیں، ان کا حصہ لعنت ہی ہے، اور ان کا ٹھکانہ بُرا گھر” یعنی جہنم ہے!۔

 رشتہ داروں کے ساتھ بات بات پر ناراض ہونا اور قطع تعلقی کر لینا، جنّت میں داخلے سے محرومی کا باعث ہے، حضرت سیِّدنا جُبَیر بن مُطعِم ﷛ سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعٌ»([17]) “قطع رحمی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا”۔

قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، حضرت سیِّدنا ابوہریرہ ﷛  سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ»([18]) “بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات (شبِ جمعہ) پیش کیے جاتے ہیں، لہٰذا رشتہ توڑنے والے کسی بھی شخص کا عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”۔

برادرانِ اسلام! قرآنِ کریم میں رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کا حکم دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾([19]) “اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں، اور لوگوں سے اچھی بات کہو!”۔

اس دنیا میں سب سے زیادہ حُسنِ سُلوک، اور عزّت افزائی کے لائق ہمارے اپنے والدین ہیں، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّبِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا﴾([20]) “اے حبيب! آپ ان سے فرما دیجیے كہ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پرتمہارے رب نے حرام کیا، یہ کہ كسى كو اللہ کا شریک مَت ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو”۔

عزیزانِ محترم! جو مسلمان  اپنے والدین اور بڑوں كے ساتھ عزّت، احترام  اور حُسن سُلوک کا مُعاملہ کرتا ہے، اللہ تعالی دنیا ہی میں اس کی عزّت واحترام کا ساماں کر دیتا ہے، اور اس کی اپنی اولاد کے دل میں اس کی عزّت ڈال دی جاتی ہے۔ رحمتِ عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا: «بَرُّوا آباءَكُمْ، تَبَرُّكُمْ أَبْنَاؤُكُم»([21])“اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، تمہارے بچے بھی تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے”۔

والدین سےحُسن سُلوک اور بھلائی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کی جائے، ان کی عزّت وتکریم اور ادب واحترام کیا جائے، ان کے ہر جائز حکم پربخوشی  عمل کیا جائے، ان کی خدمت کے لیے  ہر دَم کوشاں رہا جائے، اور انہیں خوشی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، نیز اس سے نرم گفتگو کی جائے، ان کے آگے تواضُع، عاجزی اور انکساری کی جائے!۔

جانِ برادر! اپنے اہل وعِیال کے ساتھ بھی نرمی، محبت اور حُسنِ سُلوک سے پیش آنا  چاہیے کہ یہ شرعاً اُن کا حق ہے، اور اسی کی ہمیں تلقین وترغیب دی گئی ہے، حضرت سیِّدہ عائشہ صدّیقہ طیِّبہ طاہرہ ﷝ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِه، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي!»([22]) “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےلیے اچھا ہے، اور میں اپنے اہل وعِیال کے لیے تم سب سے بہتر سُلوك كرنے والا ہوں”۔

یاد رکھیے! رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آنا، آپ کا اِحسان نہیں بلکہ اُن کا حق ہے، لہذا والدین، بہن بھائیوں، اور اہل وعِیال سمیت دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کیے گئے حُسنِ سُلوک یا نیکی کو جتایا نہ جائے، نہ ہی انہیں اپنے سے کمتر سمجھا جائے، نیز اللہ تعالی سے اُن کے حقوق کی ادائیگی اور پاسداری کی توفیق مانگی چاہیے!۔

عزیزانِ مَن! بڑوں کا ادب واحترام اور چھوٹوں پر رحم وشفقت، یہ رشتہ داروں سمیت تمام مسلمانوں کے اہم حقوق میں سے ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ہمیں اپنے بڑوں کی تعظیم وتوقیر   کرنے، اور چھوٹوں کے ساتھ محبت وشفقت سے پیش آنے کا حکم دیا ہے،  حضرت سیِّدُنا انس بن مالک ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا»([23])“جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، اور ہمارے بڑوں کی عزّت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں”۔

ایک اَورمقام پر ارشادفرمایا: «كَبِّرِ الكُبْرَ»([24]) “بڑے کے مرتبہ اور عزّت کا خیال رکھو!”  لہذا آج اگر ہم یہ  چاہتے ہیں کہ کَل بڑھاپے میں کوئی ہماری عزّت وتکریم کرے، تو آج  ہمیں بھی اپنے بڑوں، بزرگ رشتہ داروں، اورعمر رسیدہ مسلمانوں کی عزّت اور ان کا ادب واحترام کرنا ہو گا، حضرت سیِّدُنا اَنَس ﷛ سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخاً لِسِنِّهِ، إِلَّا قَيَّضَ اللهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّه»([25]) “جو جوان کسی بوڑھے کے عمر رسیدہ ہونے کے باعث اس کی عزّت کرتا ہے، اللہ تعالی اُس جوان کے لیے کسی کو مقرَّر فرما دیتا ہے، جو اِس کے بڑھاپے میں اس کی عزّت کرے گا”۔

حضراتِ گرامی قدر! ہمارے خونی اور قریبی رشتہ داروں میں ایک اہم رشتہ اولاد کا بھی ہے، یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ساتھ ہمارا خون اور جذبات دونوں جُڑے ہوتے ہیں، اسلامی تعلیمات میں اولاد کے حقوق کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اور اَولاد کا سب سے اہم اور بنیادی حق اُن کی اچھی تعلیم وتربیت ہے، اور اَولاد کی اچھی تربیت ہی اچھے مُعاشرے کی بنیاد ہے، حضرت سیِّدنا ایوب بن موسیٰ﷛ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَداً مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ»([26]) “باپ کی طرف سے اَولاد کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں، کہ وہ ان کی اچھی تربیت کرے!”۔

حضرت سیِّدُنا علی -کرّم اللہ وجہہ- نے فرمایا: «عَلِّمُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُم الخَيْرَ!»([27]) “اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بھلائی کی تعلیم دو!”۔

عزیزانِ گرامی قدر! “بعض لوگوں کو اپنی اولاد میں سے لڑکوں کے ساتھ زیادہ محبت ودلچسپی ہوتی ہے، جبکہ لڑکیوں کو وہ بوجھ سمجھتے ہیں، اور ان کی خبر گیری اور تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں، یہ عمل مُعاشرتی بگاڑ کا ایک بدترین سبب ہے، دین اسلام نے خصوصیت کے ساتھ لڑکیوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی تاکید فرمائی، اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے، نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ، فَأَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ»([28]) “جس شخص کی تین3 بیٹیاں ہوں، وہ ان کی اچھی تربیت کرے، اور مناسب جگہ ان کی شادی کرے، اور ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے، اس کےلیے جنّت ہے”([29])۔

میرےمحترم بھائیو! “اللہ کے حبیب ﷺنے ہميں ساری اولاد کے درمیان برابری کا حکم فرمایا، اور یہ بھی کہ ان کے درمیان فرق نہ کیا جائے، سروَرِکونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: «اتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ»([30]) “اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے مابین برابری رکھو”۔

بیٹے کو بوسہ ومحبت زیادہ دینے، اور بیٹی کو محبت سے محروم کرنے والوں کو رسول الله ﷺ نے تنبیہ فرمائی ہے، کہ اس مُعاملہ میں بھی اپنے بچوں میں برابری کی جائے، ایک شخص حضور نبئ  کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اس کا بچہ آیا، اس نے اسے اُٹھایا، چوما اور اپنی گود میں بیٹھا لیا، پھر كچھ دير بعد اس کی بچی آئی ، تو اس نے  اسے اُٹھایا اور اپنی ایک جانب بٹھا دیا، رحمتِ عالميان ﷺ نے فرمایا: «فَمَا عَدَلْتَ بَيْنَهُمَا»([31]) “تم نے  ان دونوں کے درمیان برابری نہیں کی”([32])۔

حضراتِ ذی وقار! رشتہ داروں کے حقوق میں محض ان سے صلہ رحمی، حُسنِ سُلوک اور اظہارِ ہمدردی کافی نہیں، بلکہ وقت ضرورت ان کی حاجت رَوائی، خبرگیری، اور حسب استطاعت مالی تعاوُن بھی ہماری ذمہ داری ہے، قرآنِ کریم میں متعدِد مقامات پر اس کی تلقین آئی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَالسَّآىِٕلِيْنَ۠ وَفِي الرِّقَابِ﴾([33]) “اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، اور سائلوں کو”۔

عزیزانِ مَن! رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاوُن اور صدَقات وخیرات کے ذریعے مدد اُن کا حق ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ١ٞ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾([34]) “تو رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو، یہ بہتر ہے اُن کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں، اور انہی کا کام بنا” یعنی وہ فلاح پانے والے ہیں!۔

صدَقات وخیرات میں رشتہ داروں کو مقدَّم رکھنے کا حکم ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا يُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ﴾([35]) “تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ تم فرماؤ : جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو، تو وہ ماں باپ، قریب کے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں اور راہ گیرکے لیے ہے، اور جو تم بھلائی کرو یقیناً اللہ اُسے جانتا ہے!”۔

ایک اَور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى﴾([36]) “یقیناً اللہ حکم فرماتا ہے انصاف، اور نیکی، اور رشتہ داروں کو دینے کا”۔

حضراتِ گرامی قدر! مخالف اور کینہ پروَر رشتہ دار پر خرچ کرنا افضل ترین صدَقہ ہے، حضرتِ سیِّدنا ابوایوب انصاری ﷛  سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «إِنَّ أَفْضَلَ الصَّدَقَةِ: الصَّدَقَةُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ الْكَاشِحِ»([37]) “بےشک سب سے افضل صدَقہ وہ ہے جو کينہ پروَر رشتہ دار پر کيا جائے”۔

حضرت سیِّدنا سلمان بن عامر ﷛ سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «الصَّدَقَةُ على المسكينِ صَدَقة، وهي على ذي الرَّحمِ ثِنْتَانِ: (1) صدقة (2) وصِلة»([38]) “کسی عام غریب کو صدقہ دینے کا ایک اجر ہے، اور رشتہ دار غریب کو صدقہ دینے کا دُگنا اَجر ہے: (1) ایک صدقہ دینے کا (2) اور دوسرا رشتہ داری نبھانے کا، صلہ رحمی کا”۔

حضور نبئ کریم ﷺ نے مُعاشی اعتبار سے کمزور اور غریب رشتہ داروں کی مدد کی تلقین فرمائی، جب حضرت سیِّدنا ابو طلحہ ﷛ نے اپنا باغ راہِ خدا میں صدقہ کیا، تو رحمتِ عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا: «اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ»([39]) ” اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو!”۔

میرے عزیز دوستو، بھائیو اور بزرگو! رشتہ داروں کے ساتھ نیک سُلوک اور اُن کے حقوق کی ادائیگی ا جر وثواب کا سبب، جبکہ  قطع تعلقی دنیا وآخرت میں نقصان  ووبال کا باعث ہے، لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں سمیت تمام رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے، اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ بَرتے، خوش دلی سے پیش آئے، بڑوں کا ادب واحترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے، قطع تعلقی نہ کرے، وہ بیمار ہوں تو اُن کی عِیادت کو جائے، انہیں کوئی مشکل درپیش ہو تو ان كی حاجت رَوائی کرے، اُن سے کوئی غلطی سر زَد ہو جائے تو درگزر کرے، انہیں مالی مسائل درپیش ہوں تو حسبِ استطاعت مالی تعاوُن کرے؛ کہ ایسا کرنا دنیا وآخرت دونوں جہاں میں فلاح وکامرانی کا سبب ہے!۔


([1]) “بہارِ شریعت” حظر واِباحت کا بیان، حصہ شانزدہم 16، سُلوک کرنے کا بیان، 3/ 558۔

([2]) پ15، بني إسرائيل: 26.

([3]) پ13، الرَعد: 21.

([4]) “صحيح البخاري” كتاب بَدْء الْوَحْيِ، باب كيف كان بَدْءُ الوحْيِ …إلخ، ر: 3، صـ1.

([5]) “شعب الإيمان” للبَيهقي، باب في حسن الخلق، ر: ٨٣٠٠، ٦/٢٨١١.

([6]) “صحيح البخاري” كتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة، ر: 1396، صـ225.

([7]) “مسند الإمام أحمد” حديث مُعاذ بن أنس الجُهني h، ر: 15618، 5/309.

([8]) “صحيح البخاري” كتاب الأدب، باب ليس الواصل بالمكافئ، ر: 5991، صـ1049.

([9]) پ18، النور: 22.

([10]) “سنن الترمذي” أبواب البرّ والصلة، ر: 1979، صـ458.

([11]) “صحيح البخاري” باب من بسط له في الرزق بصلة الرحم، ر: 5986، صـ1048.

([12]) “مسند أبي يعلى” للمُوصِلي، يزيد الرقاشي عن أنس بن مالك، ر: 4104، 3/318. و”المقصد العلي في زوائد أبي يعلى المُوصِلي” كتاب البِرّ والصلة، ر: 996، 3/ 18.

([13]) “صحيح البخاري” كتاب الأدب، باب إكرام الضيف …إلخ، ر: 6138، صـ1069.

([14]) “مسند الإمام أحمد” مسند السيّدة عائشة i، ر: ٢٥٣١٤، ٩/٥٠٤.

([15]) پ4، النساء: 1.

([16]) پ13، الرعد: 25.

([17]) “صحيح البخاري” كتاب الأدب، باب إثم القاطع، ر: 5984، صـ1048.

([18]) “مسند الإمام أحمد” مسند أبي هريرة h، ر: 10276، 3/533.

([19]) پ1، البقرة: 83.

([20]) پ8، الأنعام: 151.

([21]) “مُستدرَك الحاكم” كتاب البرّ والصّلة، ر: ٧٢٥٩، ٧/٢٥٩٢.

([22]) “سنن الترمذي” أبواب المناقب، باب فضل أزواج النّبي g، ر: ٣٨٩٥، صـ٨٧٨.

([23]) المرجع نفسه، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، ر: ١٩١٩، صـ٤٤٨.

([24]) “صحيح البخاري” كتابُ الْأدب، ر: 6143، صـ1071.

([25]) “سنن الترمذي” أبوابُ البرّ والصلة، ر: 2022، صـ466.

([26]) المرجع نفسه، باب ما جاء في أدب الولد، ر: ١٩٥٢، صـ٤٥٣.

([27]) “شعب الإيمان” باب في حقوق الأولاد والأهلين، ر: 8704، 6/2911.

([28]) “سنن أبي داود” كتاب الأدب، باب فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ يَتَامَى، ر: ٥١٤٧، صـ٧٢٣.

([29]) “تحسینِ خطابت2020ء” بڑوں کا ادب واحترام اور تربیتِ اولاد، 1/90، 91۔

([30]) “صحيح البخاري” باب الإِشْهَادِ فِي الْهِبَة، ر: ٢٥٨٧، صـ٤١٨.

([31]) “شعب الإيمان” باب في حقوق الأولاد والأهلين، ر: ٨٧٠٠، 6/٢٩1٠.

([32]) “تحسینِ خطابت2020ء” بڑوں کا ادب واحترام اور تربیتِ اولاد، 1/91۔

([33]) پ2، البقرة: 177.

([34]) پ21، الرُوم: 38.

([35]) پ2، البقرة: 215.

([36]) پ14، النحل: 90.

([37]) “مسند الإمام أحمد” حديث أبي أيوب الأنصاري، ر: 23589، 9/138.

([38]) “سنن الترمذي” أبواب الزكاة، باب ما جاء في الصدقة على ذي القرابة، ر: 658، صـ168.

([39]) “صحيح مسلم” كتاب الزكاة، باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين …إلخ، ر: 2316، صـ405.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *