
الحمد لله ربّ العالمين، والصّلاةُ وَالسّلامُ عَلى سَيّد الأَنبياءِ وَالمرسَلين, وعَلى آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجمَعِيْن، وَمَن تَبِعَهُم بِإِحْسَانٍ إِلى يَوْمِ الدِّين، أَمّا بَعد: فَأَعُوذُ بِالله مِنَ الشّيطانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيْم.
حضور پُرنور، شافعِ یومِ نُشور ﷺ کی بارگاہ میں ادب واحترام سے دُرود وسلام کا نذرانہ پیش کیجیے! اللَّهُمَّ صلِّ وسلِّمْ وبارِكْ علَى سيّدِنَا ومولانا وحبيبِنا مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِهِ وصَحبِهِ أجمعين.
ماحولیات کی نگہبانی وحفاظت
عزیزانِ محترم! اللہ تعالی نے اسلام کو اِن قواعد ومَبادی کا مجموعہ بنایا ہے، جن سے انسان کی راہیں اُس کے اِرد گرد ماحول کے ساتھ باہمی مُعاملات میں مضبوط ہوں، نیز انسان کو اپنے ماحول کی نگہبانی اور حفاظت کا حکم بھی دیا، اللہ تعالی نے ہمیں اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اِسراف وفضول خرچی سے بھی منع فرمایا ہے، اور ماحولیاتی وسائل میں اِسراف تو اُن وسائل کو تباہ وبرباد کرنے کے مترادِف ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْاط إِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْـمُسْرِفِيْنَ﴾([1]) “کھاؤ اور پیو، اور فضول مت اڑاؤ! يقينًا فضول خرچ اللہ تعالی کو پسند نہیں”۔ سروَرِ عالَم ﷺ نے بھی فضول خرچی سے منع فرمایا ہے، مصطفى جانِ رحمت ﷺ حضرت سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ وضو کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: «مَا هَذَا السَّرَفُ؟!» “یہ کیا اِسراف ہے؟” حضرتِ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی: کیا وضو میں بھی اِسراف ہے؟ تاجدارِ رسالت ﷺ نے فرمایا: «نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهرٍ جَارٍ»([2]) “ہاں، اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی کیوں نہ ہو!”۔
دينِ اسلام نے فساد سے منع فرمایاہے
رفیقانِ گرامی! ماحول کو خوشگوار وپُر امن رکھنے کے لیے اسلام نے فساد سے منع فرمایا ہے؛ اس لیے کہ اس بُرائی کے بہت عظیم نقصانات ہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِيْ الْأَرْضِ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْـمُفْسِدِيْنَ﴾([3]) “زمین میں فساد نہ چاہو، یقیناً الله تعالی فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا”۔ ایک اَور مقام پر الله تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِيْ الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَاط ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾([4]) “اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ! اِس میں تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ”۔
ماحولیاتی صفائی ستھرائی
جانِ برادر! نبئ کریم روف ورحیم ﷺ نے پانی کی حفاظت کے پیشِ نظر اس میں گندگی ڈالنے سے منع فرمایا؛ کہ پانی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی طرح حضور نبئ کریم ﷺ نے بدن، لباس، کھانے پینے کی چیزوں، سڑکوں اور گھروں کی صفائی ستھرائی کا بھی تاكيداً حکم فرمایا ہے، اور پاکیزگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، سروَرِ کونین ﷺ نے کھانے پینے کی چیزوں کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: «أَوْكُوْا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوْا اسْمَ اللهِ، وَخَمِّرُوْا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوْا اسْمَ اللهِ»([5]) “اللہ تعالی کا نام لے کر اپنے مَشکیزوں کا منہ بند کرو! اور اللہ تعالی کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانپ دیا کرو!”۔
ماحولیاتی ہریالی
عزیز دوستو! تاجدارِ ختمِ نبوّت ﷺ نے درخت لگانے کی اَہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: «إِنْ قَامَتْ عَلَى أَحَدِكُمُ الْقِيَامَةُ، وَفِي يَدِهِ فَسْلَةٌ، فَلْيَغْرِسْهَا»([6]) “اگر تم میں سے کسی پر قیامت قائم ہو، اور اُس کے ہاتھ میں كوئى پودا ہو، تو چاہیے کہ اس حالت ميں بھی اُسے لگا دے”۔ یہ ماحولیاتی ہریالی کو وسعت دینے اور زمین کو صحراء بننے سے بچانے پر تاکید ہے۔
درخت لگانے کا اجر وثواب
عزیزانِ گرامی قدر! سرکارِ دو عالم ﷺ نے درخت لگانے کا اجر وثواب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْساً، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعاً، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيْمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ»([7]) “جو مسلمان کوئی پودا يا درخت لگائے، یا کھیتی کاشت کرے، اور کوئی پرندہ، انسان یا جانور اُس میں سے کھائے، تو وہ لگانے والے کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے”۔
مضرِ صحت اسباب
حضراتِ گرامی! دینِ اسلام نے انسان کی نفسیات اور صحت پر منفی اثرات مرتَّب کرنے والے اسباب سے خلاصی کی اَہمیت کو بھی اُجاگر کیا ہے، جيسے گاڑیوں کے ہارنوں یا ٹیپ ریکارڈرز وغیرہ کی بلند آوازوں کا شور انسانی سماعت کو کمزورکرتا، اور ذہنی تناؤ کا سبب بنتاہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَط إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحمِيْرِ﴾([8]) “اپنی آواز کچھ پست کرو! یقیناً سب آوازوں میں بُری آواز گدھے کی ہے”۔
یہ ہیں اسلام کے وہ بعض ضابطے جو ماحولیات کی اَہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اب غور اس بات پر کرنا ہے کہ کیا آج ہم ان ضوابط کو اختیار کیے ہوئے ہیں؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج ہمارے مُعاشرے میں ماحولیاتی مشکلات شدّت اختیار کرتی جارہی ہیں، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بشریت کے فائدے کے لیے دین اسلام کی اِن روشن تعلیمات کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔
نعمت کو خراب کرنا
عزیزانِ محترم! خوبصورت ماحول اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، ہم پر لازم ہے کہ اس پر بھی اللہ تعالی کا شکر بجا لائیں، اور ادائے شکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت وبہتری کے لیے کوشش کریں؛ تاکہ یہ بغیر مشکلات کے خدمتِ بشریّت ہو جائے، بلاشبہ اللہ تعالى نے کسی نعمت کو خراب کرنے والے کی سخت گرفت کا وعدہ فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللهِ مِنْم بَعْدِ مَا جَاءتْهُ فَإِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾([9]) “جو اللہ تعالى کی آئی ہوئی نعمت کو خراب كرے، تو یقیناً اللہ کا عذاب سخت ہے”۔
آبی ماحول کی حفاظت
برادرانِ اسلام! بلا شبہ دینِ اسلام نے آبی ماحول کی بھی حفاظت کا حکم فرمایا ہے، جیسے نہروں، کنوؤں اور چشموں میں گندگی یا نجاست ڈالنے، یا قضائے حاجت کرکے انہیں گندا کرنے سے منع فرمايا، اسی طرح اس میں سے پینے والے، یا اس میں نہانے والے کو تکلیف دینے سے بھی منع فرمایا؛ تاکہ انسان پانی کےفوائد سے محروم نہ ہو جائے، چنانچہ حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضورِ اَكرم ﷺ نے فرمایا: «لاَ يَبُوْلَنَّ أَحَدُكُمْ فِيْ الْـمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِيْ لاَ يَجْرِيْ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيْهِ»([10]) “تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے! کہ پھر اُسی سے غسل کرے گا”۔
ہَوا کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کا حکم
عزیز دوستو! ہوا کو بھی آلودگی سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے سبب جراثیم اور وبائی امراض پھیلتے ہیں، اسی لیے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا ہے، سروَرِ كونين ﷺ نےفرمایا: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ، فَلاَ يَتَنَفَّسْ فِيْ الْإِنَاءِ»([11]) “تم میں سے کوئی پانی پیتےوقت برتن میں سانس نہ لے!”۔
لعنت وملامت کے اسباب
میرے بزرگو اور دوستو! اسلامی تعلیمات نے ہمیں راستوں اور درختوں کے سایہ میں قضائے حاجت سے منع فرمایا ہے؛ کہ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ» “لعنت کے اسباب سے بچو!” صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسولَ اللہ! لعنت کے اسباب کیا ہیں؟ مصطفی جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا: «الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ»([12]) “جو شخص لوگوں کے راستے یا اُن کے سائے میں بیٹھنے کی جگہ قضائے حاجت کرے”، یعنی یہ فعل لعنت وملامت کا سبب ہے۔
بلا ضرورت درخت کاٹنا
حضراتِ گرامی قدر! اسلام نے ہمیں راستے کی حفاظت، اور اُس کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا ہے، اور جب تک کسی درخت کے باقی رکھنے میں لوگوں کا فائدہ ہو، اُسے اُکھاڑنے یا جلانے سےمنع فرمایاہے؛ تاکہ لوگ اُس کے سائے یا پھلوں سے فائدہ اٹھا تے رہیں، حضور نبئ کریم ﷺنے فرمایا: «مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً، صَوَّبَ اللهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ»([13]) “جس نے بیری کا درخت کاٹا، اللہ تعالی اُسے سر کے بل جہنّم میں ڈالے گا”۔
راستے سے تکلیف دہ چیز دُور کرنا
محترم بھائیو! مصطفى جانِ رحمت ﷺ نے اچھے ماحول کی بقا پر قابو پانے کے لیے، اس کی صفائی ستھرائی اور گندگی سے حفاظت کی طرف خصوصی توجّہ دلائی ہے، اسی خاص اہتمام کے سبب رحمتِ عالمیان ﷺ نےصفائی کو ایمان کا ایک حصّہ شمار کرتے ہوئے، گزر گاہوں کو صاف رکھنے کے لیے ان سے تکلیف دہ چیزوں کو دُور کرنے کا یوں حکم فرمایا: «الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: “لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ”، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ»([14]) “ایمان کے ستّر70 یا ساٹھ60 شعبے ہیں، جن میں سب سے افضل لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہنا ہے، اور سب سے ادنٰی شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے”۔
لفظ “تکلیف دہ” عام ہے، اس میں ہر وہ تکلیف داخل ہے جس سے لوگوں کو پریشانی ہو، اس کے اِزالہ اور اُس سے خلاصی کا مسلمان کو حکم دیا گیا، نبئ کریم ﷺنے راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنے کو گناہوں کی مغفرت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب قرار دیا ہے، جس پر آپ ﷺ کا یہ فرمان واضح دلیل ہے: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَذَهُ، فَشَكَرَ اللهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ»([15]) “ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ کانٹے دار شاخ راستے میں پائی تو اُسے ہٹا دیا، اللہ تعالی نے اُ س کے اس عمل كو قبول فرما کر اُس کی مغفرت فرما دی”۔ گویا یہ عمل جنّت میں داخلے کا ایک اہم سبب ہے۔
نسلِ انسانیاور کھیتیوںکو بربادکرنے کی کوشش
ميرے بزرگو اور دوستو! اسلام نے نسلِ انسانی کے ساتھ ساتھ فصلوں کو اجاڑنے، اور پیڑ پودوں کو برباد کرنے سے بھی منع کیا ہے، اور اسے زمین میں فساد پھیلانے سے تعبیر کيا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِيْ الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِهَا وَیُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لاَ یُحِبُّ الفَسَاد﴾([16]) “جب وہ لَوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی، اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے”۔
گھر کے صحن اور ارد گردکے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا
جانِ برادر! دینِ اسلام نے ماحولیات کی حفاظت، راستوں، گلیوں اور سڑکوں کی صفائی، اور گھروں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے، حضور رحمتِ عالم ﷺ کا فرمان ہے: «إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الجُودَ، فَنَظِّفُوا أَفْنِيَتَكُمْ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ»([17]) “اللہ تعالى اچھا ہے اچھوں کو پسند کرتاہے، پاک ہے پاکی وصفائی کو پسند کرتا ہے، مہربان ہے مہربانی کو پسند کرتاہے، سخی ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے، تو اپنے گھر کے صحن اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھو! اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو!”۔
اے اللہ! ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں تمام گناہوں سے بچا، ہمارے وطنِ عزیز کو اندرونی وبَیرونی خطرات وسازشوں سے محفوظ فرما، ہر قسم کی دہشتگردی، فتنہ وفساد، خون ریزی وقتل وغارتگری، لُوٹ مار اور تمام حادثات سے ہم سب کی حفاظت فرما، اس مملکتِ خداداد کے نظام کو سنوارنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو دینی وسیاسی فہم وبصیرت عطا فرما کر، اِخلاص کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کی توفیق عطا فرما، اور ان خدمات کے لیے ہمیں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اچھے نمائندے منتخب کرنے کی سعادت عطا فرما، وطنِ عزیز کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے درجات بلند فرما، ہمیں اپنی اور اپنے حبیبِ کریم ﷺ کی سچی اِطاعت کی توفیق عطا فرما، اے اللہ! ہمارے ظاہر وباطن کو تمام گندگیوں سے پاک وصاف فرما، اپنے محبوب نبی ﷺ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے قرآن وسنّت کے مطابق اپنی زندگی سنوارنے، اور سرکارِ دو عالَم ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی مَحبت اور اِخلاص سے بھرپور اطاعت کی توفیق عطا فرما، ہمیں دنیا وآخرت میں بھلائیاں عطا فرما، پیارے مصطفی کریم ﷺ کی پیاری دعاؤں سے وافَر حصّہ عطا فرما، ہمیں اپنا اور اپنے حبیبِ کریم ﷺ کا پسنديدہ بنا، اے الله! تمام مسلمانوں پر اپنى رَحمت فرما، سب كى حفاظت فرما، اور ہم سب سے وه كام لے جس میں تيرى رِضا شاملِ حال ہو، تمام عالَمِ اسلام کی خیر فرما، آمین یا ربّ العالمین!۔
وصلّى الله تعالى على خير خلقِه ونورِ عرشِه، سيّدنا ونبيّنا وحبيبنا وقرّة أعيُننا محمّدٍ، وعلى آله وصحبه أجمعين وبارَك وسلَّم، والحمد لله ربّ العالمين!.
([2]) “سنن ابن ماجه” كتاب الطهارة، ر: ٤٢٥، صـ٧٩.
([5]) “صحيح مسلم” كتاب الأشربة، ر: ٥٢٥٠، صـ٩٠٠.
([6]) “مسند الإمام أحمد” مسند أنس بن مالك، ر: ١٢٩٠١، ٤/٣٦٧.
([7]) “صحيح مسلم” باب فضل الغرس والزرع، ر: ٣٩٦٨، صـ٦٧٩.
([10]) “صحيح البخاري” باب البول في الماء الدائم، ر: 2٣٩، صـ٤٤.
([11]) “سنن الترمذي” أبواب الأشربة، ر: ١٨٨٩، صـ٤٤٢.
([12]) “صحيح مسلم” كتاب الطهارة، ر: ٦١٨، صـ١٢٧.
([13]) “سنن أبي داود” باب فِي قَطْعِ السِّدْر، ر: ٥٢٣٩، صـ٧٣٥.
([14]) “صحيح مسلم” كتاب الإيمان، ر: ١5٣، صـ٣٩.
([15]) “سنن أبي داود” باب في إماطة الأذى عن الطريق، ر: 5245، صـ٧٣٦.
([17]) “سنن الترمذي” باب مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ، ر: 2799، صـ631.