"یہ ایک اردو بلاگ ہے جہاں لوگ اسلامی مضامین پڑھ سکتے ہیں۔ یہ مضامین علماء کی طرف سے لکھے گئے ہیں، جو آپ کی علمی حد تک بڑھائیں گے

مہمان نوازی کی اہمیت وفضیلت
برادرانِ اسلام!مہمان نوازی انبیائے کرام کی سنّت اور علامتِ اِیمان ہے، اللہ رب العالمین نے قرآنِ حکیم میں حضرت سیِّدنا ابراہیم کی مہمان نوازی کا باقاعدہ ذکر فرمایا، ارشادِ باری تعالی ہے:﴿وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ﴾([1]) “اور یقیناً ہمارے فرشتے (انسانی شکل میں) ابراہیم کے پاس مژدہ (خوشخبری) لے کر آئے، بولے: سلام، کہا: سلام، پھر (حضرت ابراہیم نے) کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بُھنا (ہوا) لے آئے”۔
“تفسیرِ قُرطُبی” میں ہے کہ “حضرت سیِّدنا ابراہیم پہلے وہ انسان ہیں
جنہوں نے دنیا میں مہمان نوازی کا طریقہ رائج فرمایا”(Read More)

اولاد کے حقوق
عزیزانِ محترم! بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا اِنحصار انہی پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، شفقت اور بہت محبت کے حقدار ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اَہمیت مسلَّم ہے، اسی بنا پر اسلامی تعلیمات میں جہاں والدین کی اِطاعت اور ان کے ساتھ حسنِ سُلوک کی اَہمیت بیان کی گئی ہے، وہیں بچوں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رُخی نہیں، ہمہ گیر ہے۔ والدین اگر اسلامی معاشرے میں بنیادی اِکائی کی حیثیت رکھتے ہیں، تو بچے اس اِکائی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں، یہ دونوں مل کر مُعاشرے کو سجاتے ہیں، بچے تو اور بھی زیادہ اَہمیت رکھتے ہیں؛ کیونکہ وہ نہ صرف والدین کی شخصی پہچان ہیں، بلکہ معاشرے کی ترقی اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہیں۔ آج کی اولاد کل کے والدین، اور آج کے بچے کل کے جَوان اور بزرگ ہیں۔ اس بنا پر اسلام نے بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات عطا فرمائی ہیں(Read More)

حقوق العباد
حضراتِ ذی وقار! حقوق العباد کا لفظی معنی ہے بندوں کے حقوق۔ ان میں والدین، اولاد، زوجہ، رشتہ دار، یتیم، مسکین، مسافر، اہلِ حاجت، ہمسایہ، سائل، قیدی وغيره کے حقوق، اور اجتماعی و معاشرتی حقوق کا وسیع تصور ہے۔ حقوق العباد ادا کرنا اہلِ ایمان جنتیوں کی صفت ہے۔ بروزِ قیامت نہ صرف اللہ تعالى کے حقوق: نماز، روزہ، زکات، حج وغیرہ کا حساب ہوگا، بلکہ بندوں کے حقوق کا بھی حساب ليا جائے گا(Read More)

حقوقِ زوجین ووفاداری
عزیزانِ محترم! اللہ ربُّ العالمین نے ایما ن والوں کے لیے مابین زوجین شادی ووفاشعاری کو نعمت بنایا، میاں بیوی کے درمیان اُلفت ومحبت اور وفاداری قائم فرمائی، رشتۂ ازدواج دلوں کی پاکیزگی، تقوی وپرہیزگاری کا سبب، بد نگاہی، بے حیائی، فحاشی، عُریانیت،گناہوں کے دَلدَل، گندگی اور آلودگی سے پاک صاف رہنے کا نہایت ہی عمدہ ذریعہ ہے،(Read More)

واقعۂ معراج اور دیدارِ الٰہی
شبِ معراج اللہ تعالی نے مصطفی جانِ رحمت ﷺ کو اپنے پاس بلا کر، جو خصوصیت،شرَف، قُرب اور اپنا دیدار بخشا، خوش بختی کی ایسی معراج وسعادت کبھی کسی اَور نبی ورسول کے حصے میں نہیں آئی، ارشادِ باری تعالی ہے(Read More)

رشتہ داروں کے حقوق
برادرانِ اسلام! “صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور حُسنِ سُلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے، اور قطع رحمی (یعنی رشتہ کاٹنا توڑنا) حرام ہے”(Read More)

استقبالِ رمضان
رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے، سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور اس کی تعلیمات وبرکات دوسروں تک پہنچانے کے بےشمار مَواقع میسر آتے ہیں۔ روزہ، نماز، قرآنِ پاک، نوافل اور دیگر اَذکار واَوراد، انسان کے اندر تقویٰ اور خوفِ الٰہی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ آئیے ہم سب مل كر رمضان المبارک کا استقبال کریں(Read More)

زکات ایک بنیادی فریضہ ہے
زکات ایک اہم دینی اسلامى فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ، مُعاشى واقتصادى مشکلات کے حل کا ایک بہترین ومؤثِر ذریعہ بهى ہے۔ زکات کا لُغوی معنی ہے پاک کرنا، درست کرنا، بڑھنا، جبکہ شریعتِ اسلامیہ ميں زکات کا معنی “مال کا ایک مخصوص حصّہ، جو شریعتِ مطہَّره نے مقرّر کیا ہے، اللہ تعالی کی رِضا کے حصول کے لیے، کسی مسلمان شرعی فقیر کو اُس كا مالک بنا دینا ہے(Read More)

غزوۂ بدر معرکۂ حق وباطل
حق وباطل کی جنگ روزِ اوّل سے جاری ہے، جس کی مختلف صورتیں ہر دَور میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، انہی میں سے ایک اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوۂ بدر بھی ہے، کہ مشرکینِ مکّہ اور مسلمانوں کے درمیان ہجرت کے دوسرے سال ماہِ رمضان المبارک کی 17 تاریخ کو جمعۃ المبارک کے دن جب یہ عظیم معرکہ ہوا، تو صبر واستقلال اورتوکُّل کے اعلیٰ پیکر اہلِ ایمان، تائید الہی کی بدَولت کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے،(Read More)

مزدوروں کے حقوق
یکم مئی مزدُوروں کے عالَمی دن کے طَور پر منایا جاتا ہے، اس دن پوری قوم چھٹی مناتی ہے، لیکن مزدُور اُس دن بھی دو2 وقت کی روٹی کے لیے محنت ومشقّت کرتا ہے، مزدُوروں کے عالَمی دن پر کچھ سیاسی سماجی تنظیمیں ریلیاں نکال کر، اور تقاریب کر کے خانہ پُری تو کر لیتی ہیں،(Read More)

عقیدۂ آخرت
عقیدۂ آخرت سے مراد: مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانے، نیک اور بَد اعمال کا حساب، اور جنّت یا دوزخ کی صورت میں ملنے والی اچھی یا بُری جَزا پر پختہ یقین وایمان ہے(Read More)

مکّہ مکرّمہ کی فضیلت
کّہ مکرّمہ وہ مقدّس شہر ہے جہاں رسولِ اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت اور پروَرش ہوئی، یہیں سے دینِ اسلام کا سورج پوری آب وتاب سے چمکا، مصطفی جانِ رحمت ﷺ پر سب سے پہلی وحی بھی یہیں نازل ہوئی، اسی شہرِ مکّہ میں مسلمان حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر سے حاضر ہوتے ہیں(Read More)

مسلمان كا اپنے نبی ﷺ سے تعلق
عزيزانِ محترم! امت کا حضور نبئ اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ پختہ تعلق قائم رکھنا اور آپﷺکی تعلیمات کی پیروی اور اتباع کرنا تعلق بالرسول کہلاتا ہے(Read More)

فاتحِ قادیانیّت حضرت پیر مہر علی شاہ اور اُن کی دینی خدمات
جن حضراتِ اولیائے کرام اور علمائے دِین نے برصغیر پاک وہند میں دینِ اسلام کی شمع روشن کی، اپنی پوری زندگی تبلیغ واِشاعت اسلام کے لیے وقف کر دی، اللہ تعالی کی وَحدانیت کا پرچار کیا، پُر فتن دَور میں ختمِ نبوّت کا عَلم (جھنڈا) بلند کیا، اور قادیانیت کی بیخ کنی کی، اُن میں ایک نمایاں ترین نام فاتحِ قادیانیت، قبلۂ عالَم حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ چشتی گولڑوی کا ہے(Read More)

وسیلہ ( توسل کا بیان)
وسیلہ کے معنی: ذریعہ، واسطہ، سبب، حمایت اور مدد کے ہیں۔ قرآن، حدیث اور اقوال علمائے کرام سے، توسّل ایک ثابت شدہ امر ہے، جس کے انکار کاتصوّر کوئی صحیح العقیدہ مسلمان نہیں کرسکتا۔ وسیلہ درحقیقت بندے کا اللہ تعالی کی بارگاہ میں، اپنی دعا کی قبولیت اور طلب حاجت کی خاطر، کسی مقبول عمل یا مقرّب بندے کا واسطہ پیش کرنا ہے؛ تاکہ بندۂ گنہگار کی دعا جلد قبول ہو، اور اللہ رب العزّت اپنے اس مقرّب بندے کی برکت سے،اس کی حاجت پوری فرما دے(Read More)

شادی بیاہ کو آسان بناؤ
سلامی نظامِ مُعاشرت میں نکاح (شادی) کو بڑی اہمیت حاصل ہے؛ کیونکہ یہ اِیمان، عفّت وعصمت کی حفاظت، اور نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہے،یہی وجہ ہے کہ انسان کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق ركهتا ہو، وہ اپنے طَور پر شادی بیاہ کو ضروری قرار دیتا ہے، بغیر شادی کے اگر مَرد وعورت باہمی تعلق رکھیں، تو پوری دنیا کے باشُعور اور باحیاء لوگ اسے معیوب جانتے ہیں، شادی بیاہ گویا انسان کی فطری ضرورت ہے(Read More)

شانِ مولائے کائنات رضي الله عنه
حضرت سیِّدُنا علی المرتضی رضي الله عنه کی ولادتِ باسعادت، اعلانِ نبوّت سے دس 10 سال قبل ہوئی۔ آپ رضي الله عنه کی والدۂ ماجدہ حضرت سیِّدہ فاطمہ بنت اسد رضي الله عنه نے، اپنے والد کے نام پر آپ رضي الله عنه کا نام “حَیدر” رکھا، اپنے اس نام کے بارے میں سیِّدُنا علی المرتضی رضي الله عنه اپنے ایک رَجز میں خود فرماتے ہیں: «أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ»([2]) “میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا”۔ جبکہ آپ کے والد ابوطالب نے آپ رضي الله عنه کا نام “علی” رکھا، آپ رضي الله عنهنے سرور کونین ﷺ کی گود میں پروَرش پائی، آپ رسول اللہﷺ کے داماد، چچازاد بھائی اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفۂ راشد ہیں(Read More)

معراج النبی ﷺ
معراجِ مصطفی ﷺ ایک عظیم الشان اور انسانى ذہن کو انتہائی حیران کرنے والا معجزہ، اور سرکارِ قرار ﷺ کے فضائل وکمالات میں سے ایک ہے، اللہ تعالی نے تما م انبیاء ومرسلین علیہ السلام
کے معجزات وکما لاتِ مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی ذاتِ بابرکات میں جمع فرما کر، آپ ﷺ کو تمام مخلوقات میں سب سے ممتاز فرما دیا ہے، فضیلتِ اسراء ومعراج سے اپنے پیارے حبیب نبئ آخر الزمان ﷺ کو وہ خصوصیت وشرَف عطا فرمایا، جو کسی اور نبی ورسول کو نہیں ملا

پاکستانی مُعاشرہ میں ٹی وی ڈراموں کے منفی اثرات
ہمارے دَور میں الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media) ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے، آج لوگوں کی مثبت یا منفی ذہن سازی میں میڈیا (Media) کا بڑا عمل دخل ہے، اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے، کہ اسے اب ریاست کے چوتھے سُتون کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ اپنی اس طاقت کے زعم میں کسی بد مست ہاتھی سے کم نہیں! حاکمِ وقت بھی ان کے شر سے پناہ مانگتا، اور ان سے بات بنائے رکھنے ہی میں اپنی عافیت محسوس کرتا ہے!

اسپورٹس کلچر کے نقصانات اور اسلامی تعلیمات
عبادتِ الٰہی کو اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے، اس کی کما حقّہ ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان تندرست وتوانا ہو، چاہے نماز ہو، روزہ ہو، یا حج، ہر ایک کی ادائیگی کے لیے چاق و چوبند اور صحت مند ہونا ضروری ہے۔ صحت وتندرستی کا شمار چونکہ اللہ کی بڑی نعمتوں میں ہوتا ہے، شاید اسی لیے اللہ تعالی کو جسمانی لحاظ سے کمزور مؤمن کے بجائے طاقتور مؤمن زیادہ پسند ہے۔ حضرت سیِّدنا ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: «المُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ، مِنَ المُؤْمِنِ الضَّعِيفِ»([1]) “اللہ تعالی کے نزدیک کمزور مؤمن کے مقابل، طاقتور مؤمن بہتر اور زیادہ محبوب ہے

اسلام کا تصوّرِ جہاد
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ﴾([1]) “یقیناً وہی ایمان والے ہیں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر اس میں کوئی شک نہیں کیا، اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی لوگ سچے ہیں”۔

جہاد کی اہمیت اور شہید کا مقام ومرتبہ
برادرانِ اسلام! مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی سیرتِ طیّبہ کا ہر پہلو اگرچہ انتہائی اہم اور ہدایت بخش ہے، لیکن کلمۂ حق بلند کرنے کے لیے سروَرِ عالَم ﷺ کی جدوجہد جسے جہاد یا غزوات سے تعبیر کیا جاتا ہے، اُمّتِ مسلمہ کے سیاسی استحکام اور ترقی کے لحاظ سے اَزحد اَہمیت کا حامل ہے۔

فضائلِ عشرۂ ذی الحجّہ
خالقِ کائناتﷻ کا مخلوق پر بےانتہاء لُطف وکرم، مہربانی واحسان ہے، کہ اُس نے دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ بھلائی کے لیے رہنمائی بھی فرمائی، اور کچھ ایسے اوقات مہیا کیے جن میں ہم اپنی آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں، انہی اوقات میں سے ایک ذوالحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس میں بہت سی بھلائیاں جمع فرمادی ہیں، اور پھر ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس10 دن تو انتہائی افضل واعلیٰ ہیں، ان دِنوں کو رب تعالی نے بڑی برکتوں سے نوازا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَالْفَجْر* وَلَيالٍ عَشْر﴾([1]) "اِس صبح اور اِن دس10 راتوں کی قسم!" مفسّرینِ کرام ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "فجر سے مُراد تو صبح کی نماز ہے؛ کیونکہ اس وقت رات ودن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، یا صبح صادق کا وقت مُراد ہےکہ اس وقت تمام مخلوق اللہ کا ذکر کرتی ہے

فلسفۂ قربانی اور ہمارا مُعاشرہ
ایامِ نحر (قربانی کے دنوں) میں قُربِ الٰہی کے حصول کی نیّت سے، جو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اصطلاحِ شریعت میں اُسے قربانی کہتے ہیں([1])۔ صدر الشریعہ علّامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ “مخصوص جانور کو، مخصوص دن میں، بہ نیّتِ تقرُب ذَبح کرنا قربانی ہے۔ کبھی اس جانور کو بھی اُضحِیہ اور قربانی کہتے ہیں جو ذَبح کیا جاتا ہے۔ قربانی حضرت سیِّدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے، جو اس اُمّتِ (محمدیّہ) کے لیے باقی رکھی گئی

ماحولیات کی حفاظت
اللہ تعالی نے اسلام کو اِن قواعد ومَبادی کا مجموعہ بنایا ہے، جن سے انسان کی راہیں اُس کے اِرد گرد ماحول کے ساتھ باہمی مُعاملات میں مضبوط ہوں، نیز انسان کو اپنے ماحول کی نگہبانی اور حفاظت کا حکم بھی دیا، اللہ تعالی نے ہمیں اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اِسراف وفضول خرچی سے بھی منع فرمایا ہے، اور ماحولیاتی وسائل میں اِسراف تو اُن وسائل کو تباہ وبرباد کرنے کے مترادِف ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْاط إِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْـمُسْرِفِيْنَ﴾([1]) “کھاؤ اور پیو، اور فضول مت اڑاؤ! يقينًا فضول خرچ اللہ تعالی کو پسند نہیں”۔ سروَرِ عالَم ﷺ نے بھی فضول خرچی سے منع فرمایا ہے

خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
حضرت سيِّدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفۂ راشد ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو شجاعت، بہادُری اور حق گوئی کا پیکر بنایا، اور آپ کو سر چشمۂ ہدایت بنا کر، آپ کے ذریعے اسلام کو عزّت بخشی۔ یقیناً آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں، جن کی دینِ اسلام کے لیے عظیم الشان خدمات ہیں۔ عدل وانصاف پر مبنی آپ کے فیصلوں، کارناموں، فتوحات اورشاندار کردار سے اسلام کا چہرہ رَوشن ہے۔ آپ تاریخِ انسانی کی ایک ایسی معروف شخصیت کے مالک ہیں، جن کی عظمت کو صرف اپنے ہی نہیں، بلکہ بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ بلا شبہ آپ ایک باعظمت، انصاف پسند، عادِل حاکم، شمعِ رسالت کے پروانے اور عظیم صحابئ رسول ہیں

میلادِ مصطفی ﷺ کے مقاصد
عزیزانِ مَن! اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں اپنی نعمتوں کا خُوب چرچا کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾([10]) "اپنے رب کی نعمت کا خُوب چرچا کرو"۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ رحمتِ عالَم ﷺ کی ذات ِ والا صفات سے بڑھ کر بھلا کونسی نعمت ہو سکتی ہے؟! لہذا معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ہر سال ماہِ ربیع الاوّل کی بارہ12 تاریخ کو جشنِ عیدِ میلاد النبی منانا، نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہننا، چراغاں کرنا، گھروں پر جھنڈے لگانا، لوگوں کو کھانا کھلانا، پانی کی سبیلیں لگانا، جلوس نکانا، اجتماعِ ذکر ونعت کا اہتمام کرنا، اور شرعی حُدود وقیود کی پاسداری کرتے ہوئے، شکرِ نعمتِ الہی کے طَور پر خوشی اور مسرّت کا اظہار کرنا، شرعاً دُرست، جائز اور حُصولِ اجر وثواب کا باعث ہے!۔ ؏

بابا فرید گنجِ شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
حکیم الاُمّت مفتى احمد يار خان نعيمى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں لكھتے ہیں کہ “ان کے چہروں پر اَنوار وآثارِ عبادت ایسے ہوں، کہ انہیں دیکھتے ہی رب تعالی یاد آجائے”([3])۔ ان کے چہرے آئینۂ خدانما ہیں، یہ حضرات اِطاعتِ الٰہی پر ہمیشگی اختيار کرتے ہیں، اور دنیاوی لذّتوں میں مشغولیت سے دُور رہتے ہیں، انہیں مخلوق كى تربیت ورَہنمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے، اللہ تعالی کے ان بندوں کی صحبت سےانسان کے ظاہر وباطن کی اِصلاح ہوتی ہے، اپنے علم وعمل کے ذریعے مخلوق تک دینِ اسلام کا پیغام پہنچانے میں ان حضرات کا بڑا اہم کردار ہے، جسے اسلامی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
(Read More)

حضورِ اکرم ﷺ کا حُسن وجمال
اللہ ربّ العالمین قرآنِ پاک میں حضورِ اكرم ﷺ کے حُسن وجمال کی قسم ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ۰۰۱ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىۚ۰۰۲ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ۰۰۳ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى﴾([1]) “اس پیارے چمکتے تارے (محمد) کی قسم! جب یہ (معراج سے) اُترے! تمہارے صاحب نہ بہکے، نہ بےراہ چلے، اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے!”۔
(Read More)

مصطفی جانِ رحمت…. انسانِ کامل
اس دنیا میں رسولِ اکرم ﷺ کی تشریف آوَری کا مقصد ہی عالَمِ انسانیت کی ہدایت، رَہنمائی اور اصلاح ہے، لہذا ان کے تمام فرامینِ مبارکہ اور سیرت ِطیّبہ میں کاملیت وجامعیت کی جھلک ہونا ایک فطری امر ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ١ۗ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾([2]) “وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا، کہ اُن پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں، اور انہیں پاک کرتے ہیں، اور انہیں کتاب وحکمت کا علم عطا فرماتے ہیں، اور وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے”۔
(Read More)

نعت خوانی کے آداب واَحکام اور دَورِ حاضر کی خُرافات
حضور نبئ کریم ﷺ کی مدحت، تعریف وتوصیف، شمائل وخصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو، نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ: مدح وثناء اور اِنشاد بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نعتیں لکھیں اور پڑھیں، اوران کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے، یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے اور -ان شاء اللہ- ہمیشہ جاری رہے گا۔
(Read More)